منجمد ہونٹوں پہ ہے یخ کی طرح حرف جنوں
منجمد ہونٹوں پہ ہے یخ کی طرح حرف جنوں
سر کسی سیل زدہ شاخ کے مانند نگوں
کہاں سرما نفس الفاظ کہاں سوز دروں
لالۂ دشت زمستاں ہے میں جو بات کہوں
میں کہاں پہنچا کہ ہر بت جسے پوجا اب تک
ہے شکستہ سر خاک اور میں شکستہ تو ہوں
رحم کر خواب تمنا پہ نگاہ نگراں
ٹوٹ کر چاروں طرف بکھرے پڑے ہیں افسوں
خشت کوبی میں کسے فرصت خواب خوباں
زندہ رہنے کے تقاضوں نے کیا زیست کا خوں
کتنے اقدار کے ایوان زمیں بوس ہوئے
آگہی راکھ کا اک ڈھیر ہوئی جاتی ہے کیوں
کتنے ارمان زمستاں زدہ شاخوں کی طرح
ہاتھ پھیلائے ہوئے تکتے ہیں سوئے گردوں
شب عجب سوختہ سامان مسافر آئے
جسم آغشتہ بہ خوں چہرے ملول و محزوں
بولے اے اجنبی اے سادہ تمنا ہمیں دیکھ
ہم بھی رکھتے تھے کبھی آرزوئیں گونا گوں
اور پھر ہم پہ کھلا وقت کی رفتار کا راز
اب کوئی رنگ کوئی روپ نہیں وجہ سکوں
بجھ گئیں آرزوئیں شام کے بادل کی طرح
گلشن و شہر ہوئے برف کی تہہ میں مدفوں
جا بہ جا حوصلے تاراج ہوئے دل ٹوٹے
پے بہ پے ہم نے سہے سرد ہوا کے شب خوں
زندگی محض شکستوں کا اک انبار گراں
اب ان آنکھوں میں نہیں کوئی طلسم فیکوں
ہم تو اے اجنبی مہمان ہیں کوئی دم کے
دم بہ دم موج فنا کہتی ہے میں ہوں میں ہوں
صبح دم سوختہ سامان مسافر بھی گئے
پھر وہی ہم وہی تنہائی وہی حال زبوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.