مقابل اس در دنداں کے یہ گہر کیا ہے
مقابل اس در دنداں کے یہ گہر کیا ہے
اور عیشؔ لال کی اس لب کے آگے در کیا ہے
خیال یار میں ہو محو بے خودی ایسا
مجھے خبر نہیں دل کیا ہے اور جگر کیا ہے
کہے ہے عشق میں ناصح کہ ہے ضرر دل کا
جو واقعی ہے ضرر یہ ہے تو ضرر کیا ہے
کیا ہے نوح کے طوفاں کو تو نے شرمندہ
ارادہ اب ترا کہہ اور چشم تر کیا ہے
ملا ہے جس کو حشم قطع ماسوا اللہ
نظر میں اس کی یہ دنیا کا کر و فر کیا ہے
تو میری آہ سے سینہ سپر نہ ہو اے چرخ
تجھے خبر نہیں اس آہ میں اثر کیا ہے
تو راہ عشق کے صدموں سے مت ڈرا واعظ
جو سرفروش ہیں اس رہ میں ان کو ڈر کیا ہے
ہمارا چاک جگر بخیہ گر سیے گا چہ خوش
یہ چاک وہ نہیں مقدور بخیہ گر کیا ہے
خیال جس کو رخ و زلف یار کا ہے بندھا
وہ جانتا ہی نہیں شام اور سحر کیا ہے
ہے دل کو ناز ترے جس جہان فانی پر
بتا وہ اور بجز خانۂ دو در کیا ہے
تو کس گھمنڈ پہ مثل شرر اچھلتا ہے
خیال دل میں تو کر ہستیٔ شرر کیا ہے
خدا نے کھولا ہے یہ راز جن پہ عالم میں
وہ جانتے ہیں کہ ماہیت بشر کیا ہے
بتوں کو سجدۂ در کے سوا بتا اے عیشؔ
جہاں میں ہم نے کیا اور عمر بھر کیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.