مسافر خانۂ امکاں میں بستر چھوڑ جاتے تھے
مسافر خانۂ امکاں میں بستر چھوڑ جاتے تھے
وہ ہم تھے جو چراغوں کو منور چھوڑ جاتے تھے
سبھی کو اگلے فرسنگوں کی پیمائش مقدر تھی
مسافر طے شدہ میلوں کے پتھر چھوڑ جاتے تھے
گرجتے گونجتے آتے تھے جو سنسان صحرا میں
وہی بادل عجب ویران منظر چھوڑ جاتے تھے
نہ تھیں معلوم بھوکی نسل کی مجبوریاں ان کو
پھٹی چادر وہ تلواروں کے اوپر چھوڑ جاتے تھے
نہیں کچھ اعتبار اب قفل و درباں کا کبھی ہم بھی
پڑوسی کے بھروسے پر کھلا گھر چھوڑ جاتے تھے
لہو پر اپنے ہی موقوف تھی دھرتی کی زرخیزی
سبھی دہقاں یہاں کھیتوں کو بنجر چھوڑ جاتے تھے
کبھی آندھی کا خدشہ تھا کبھی طوفاں کا اندیشہ
وہ ریگستان لے جاتے تو ساگر چھوڑ جاتے تھے
- کتاب : Inkaar (Pg. 146)
- اشاعت : 1983
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.