مستقل رنج و الم توڑ کے رکھ دیتے ہیں
مستقل رنج و الم توڑ کے رکھ دیتے ہیں
اچھے اچھوں کو یہ غم توڑ کے رکھ دیتے ہیں
لاکھ باطل کے ستم توڑ کے رکھ دیتے ہیں
اہل توحید صنم توڑ کے رکھ دیتے ہیں
دور حاضر میں رقیبوں کی ضرورت کیا ہے
دوستوں ہی کے کرم توڑ کے رکھ دیتے ہیں
پالا جاتا ہے بڑے ناز سے جن کو اکثر
وہی بیٹے تو بھرم توڑ کے رکھ دیتے ہیں
غالبؔ و میرؔ سے کہنے کو بچا ہی کیا ہے
پھر بھی کچھ لوگ قلم توڑ کے رکھ دیتے ہیں
ان حسینوں پہ یقیں کرنا حماقت ہے فقط
یہ تو ہر عہد و قسم توڑ کے رکھ دیتے ہیں
ہم نے تو فتح کے لہرائے وہاں بھی پرچم
حوصلے بھی جہاں دم توڑ کے رکھ دیتے ہیں
نیندیں اڑ جاتی ہیں دل ڈوبنے لگتا ہے فرازؔ
بے وفاؤں کے ستم توڑ کے رکھ دیتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.