نام بدنام ہے ناحق شب تنہائی کا
نام بدنام ہے ناحق شب تنہائی کا
وہ بھی اک رخ ہے تری انجمن آرائی کا
آ چلا ہے مجھے کچھ وعدۂ فردا کا یقیں
دل پہ الزام نہ آ جائے شکیبائی کا
اب نہ کانٹوں ہی سے کچھ لاگ نہ پھولوں سے لگاؤ
ہم نے دیکھا ہے تماشا تری رعنائی کا
دونوں عالم سے گزر کر بھی زمانہ گزرا
کچھ ٹھکانا بھی ہے اس بادیہ پیمائی کا
خود ہی بیتاب تجلی ہے ازل سے کوئی
دیکھنے کے لیے پردہ ہے تمنائی کا
لگ گئی بھیڑ یہ دیوانہ جدھر سے گزرا
ایک عالم کو ہے سودا ترے سودائی کا
پھر اسی کافر بے مہر کے در پر فانیؔ
لے چلا شوق مجھے ناصیہ فرسائی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.