ناؤ کاغذ کی سہی کچھ تو نظر سے گزرے
ناؤ کاغذ کی سہی کچھ تو نظر سے گزرے
اس سے پہلے کہ یہ پانی مرے سر سے گزرے
پھر سماعت کو عطا کر جرس گل کی صدا
قافلہ پھر کوئی اس راہ گزر سے گزرے
کوئی دستک نہ صدا کوئی تمنا نہ طلب
ہم کہ درویش تھے یوں بھی ترے در سے گزرے
غیرت عشق تو کہتی ہے کہ اب آنکھ نہ کھول
اس کے بعد اب نہ کوئی اور ادھر سے گزرے
میں تو چاہوں وہ سر دشت ٹھہر ہی جائے
پر وہ ساون کی گھٹا جیسا ہے برسے گزرے
حبس کی رت میں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا
باد و باراں کے خدا میرے بھی گھر سے گزرے
مجھ کو محفوظ رکھا ہے مرے چھوٹے قد نے
جتنے پتھر ادھر آئے مرے سر سے گزرے
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 516)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.