ناؤ طوفان میں جب زیر و زبر ہوتی ہے
ناؤ طوفان میں جب زیر و زبر ہوتی ہے
ناخدا پر کبھی موجوں پہ نظر ہوتی ہے
دور ہے منزل مقصود سفر ہے درپیش
سونے والوں کو جگا دو کہ سحر ہوتی ہے
اور بڑھ جاتی ہے کچھ قوت احساس عمل
جتنی دشوار مری راہگزر ہوتی ہے
گھر کے چھٹنے کا اثر عالم غربت کا خیال
کیفیت دل کی عجب وقت سفر ہوتی ہے
کیا گزرتی ہے گلوں پر کوئی ان سے پوچھے
نام گلشن کا ہے کانٹوں پہ بسر ہوتی ہے
عزم کہتا ہے مرا میں بھی تو دیکھوں آخر
کون سی ہے وہ مہم جو نہیں سر ہوتی ہے
کون کہتا ہے غریب الوطنی میں ساقیؔ
ساتھ لے دے کے فقط گرد سفر ہوتی ہے
- کتاب : SAAZ-O-NAVA (Pg. 19)
- مطبع : Raghu Nath suhai ummid
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.