ندی کا کیا ہے جدھر چاہے اس ڈگر جائے
ندی کا کیا ہے جدھر چاہے اس ڈگر جائے
مگر یہ پیاس مجھے چھوڑ دے تو مر جائے
کبھی تو دل یہی اکسائے خامشی کے خلاف
لبوں کا کھلنا ہی اس کو کبھی اکھر جائے
کبھی تو چل پڑے منزل ہی راستے کی طرح
کبھی یہ راہ بھی چل چل کے پھر ٹھہر جائے
کوئی تو بات ہے پچھلے پہر میں راتوں کے
یہ بند کمرہ عجب روشنی سے بھر جائے
یہ تیرا دھیان کہ سہما پرندہ ہو کوئی
ذرا سی سانس کی آہٹ بھی ہو تو ڈر جائے
بہت سنبھال کے درپن انا ہے یہ اکھلیشؔ
ذرا سی چوک سے ایسا نہ ہو بکھر جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.