نئے پیکر نئے سانچے میں ڈھلنا چاہتا ہوں میں
نئے پیکر نئے سانچے میں ڈھلنا چاہتا ہوں میں
مزاج زندگی یکسر بدلنا چاہتا ہوں میں
زمیں تیری کشش نے روک رکھا ہے مجھے ورنہ
حدود خاک سے باہر نکلنا چاہتا ہوں میں
نمو کا جوش ٹھوکر مارتا رہتا ہے سینے میں
لہو کا چشمہ ہوں کب سے ابلنا چاہتا ہوں میں
گزرتے جا رہے ہیں قافلے تو ہی ذرا رک جا
غبار راہ تیرے ساتھ چلنا چاہتا ہوں میں
میں اپنے برف کے پیکر سے خود اکتا گیا ہوں اب
چمک مجھ پر مرے سورج پگھلنا چاہتا ہوں میں
صدائیں دشت دیتا ہے مجھے وحشت بلاتی ہے
سو خاک عشق اپنے سر پہ ملنا چاہتا ہوں میں
ادھر سے بھی کوئی گزرے کہ میں جس سے کہوں اسلمؔ
چراغ رہ گزر ہوں اور جلنا چاہتا ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.