نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے
نہیں ہے اب کوئی رستہ نہیں ہے
کوئی جز آپ کے اپنا نہیں ہے
ہر اک رستے کا پتھر پوچھتا ہے
تجھے کیا کچھ بھی اب دکھتا نہیں ہے
عجب ہے روشنی تاریکیوں سی
کہ میں ہوں اور مرا سایہ نہیں ہے
پرستش کی ہے میری دھڑکنوں نے
تجھے میں نے فقط چاہا نہیں ہے
میں شاید تیرے دکھ میں مر گیا ہوں
کہ اب سینے میں کچھ دکھتا نہیں ہے
لٹا دی موت بھی قدموں پہ تیرے
بچا کر تجھ سے کچھ رکھا نہیں ہے
قیامت ہے یہی ادراک جاناں
میں اس کا ہوں کہ جو میرا نہیں ہے
مری باتیں ہیں سب باتیں تمہاری
مرا اپنا کوئی قصہ نہیں ہے
تجھے محسوس بھی میں کر نہ پاؤں
اندھیرا ہے مگر اتنا نہیں ہے
بجز نیتوؔ کی یادیں اب جہاں میں
کوئی شہزادؔ جی تیرا نہیں ہے
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 123)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.