نقش دور ماضی کے ذہن میں ابھرتے ہیں
نقش دور ماضی کے ذہن میں ابھرتے ہیں
بھولی بسری راہوں سے جب کبھی گزرتے ہیں
انگ انگ ہنستا ہے زاویے نکھرتے ہیں
جب وہ مسکراتے ہیں جب وہ بات کرتے ہیں
ہم انہیں پہ جان و دل بھی نثار کرتے ہیں
اپنا حال دل جن سے عرض کرتے ڈرتے ہیں
اس قدر نہ ہوتا زاں عارضی بلندی پر
اڑنے والے طائر کے بال و پر کترتے ہیں
نشۂ جوانی میں اڑتے ہیں ہواؤں پر
آسمان سے نیچے کب وہ پاؤں دھرتے ہیں
مہر و مہ کی گردش میں ڈھونڈھتے ہیں قسمت کو
اپنی اپنی کرتی پر کم نگاہ کرتے ہیں
جور و جبر کا ان کا سلسلہ نہیں ٹوٹا
گو وفاؤں کے ہم نے سب اصول برتے ہیں
کچھ سکون دیتی ہیں بدلیاں امیدوں کی
یاس و حزن کے طوفاں سر سے جب گزرتے ہیں
موجؔ بحر الفت میں لازمی ہیں غواصی
غرق ہونے والے ہی پار بھی اترتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.