نظر جو آیا اس پہ اعتبار کر لیا گیا
نظر جو آیا اس پہ اعتبار کر لیا گیا
حقیقتوں کے درک سے فرار کر لیا گیا
قیود آگہی سے جب سہم گئیں جبلتیں
نظر کے گرد رنگ کا حصار کر لیا گیا
شہود کی جو سطح پہ انانیت کا شور اٹھا
تو دامن خودی کو تار تار کر لیا گیا
گماں ہوا کہ راستہ ابھی مری نظر میں ہے
شریر شتر نفس بے مہار کر لیا گیا
جو لوگ دل کی الجھنوں میں غرق تھے خموش تھے
انہیں بھی اہل جذب میں شمار کر لیا گیا
رہ طلب کی سختیوں کے شکوے لب بہ لب ہوئے
سرور جد و جہد کو خمار کر لیا گیا
چلے کبھی کبھی ادھر سے عظمتوں کے قافلے
وفا کا عزم جن سے پائیدار کر لیا گیا
وہ عشق تھا کہ بندگی ضرورتیں کی آگہی
بس ایک ربط تھا جو استوار کر لیا گیا
ورق ورق رموز آگہی کے تھے لکھے ہوئے
کتب کو با رپشت بر حمار کر لیا گیا
اصول اور فروع سب شہابؔ ایک طرف ہوئے
عجب نظام زیست اختیار کر لیا گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.