نظر کو وقف حیرت کر دیا ہے
نظر کو وقف حیرت کر دیا ہے
اسے بھی دل سے رخصت کر دیا ہے
برائے نام تھا آرام جس کو
غزل کہہ کر مصیبت کر دیا ہے
سمجھتے ہیں کہاں پتھر کسی کی
مگر اتمام حجت کر دیا ہے
گلی کوچوں میں جلتی روشنی نے
حسیں شاموں کو شامت کر دیا ہے
بصیرت ایک دولت ہی تھی آخر
سو دولت کو بصیرت کر دیا ہے
کئی ہمدم نکل آئے ہیں جب سے
زباں کو صرف غیبت کر دیا ہے
سخن کے باب میں بھی ہم نے اسلمؔ
جو کرنا تھا بہ عجلت کر دیا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.