نگاہ ناز کا حاصل ہے اعتبار مجھے
نگاہ ناز کا حاصل ہے اعتبار مجھے
ہوائے شوق ذرا اور بھی نکھار مجھے
کبھی زباں نہ کھلی عرض مدعا کے لیے
کیا ہے پاس ادب نے بھی شرمسار مجھے
پرانے زخم نئے داغ ساتھ ساتھ رہے
ملی تو کیسی ملی دعوت بہار مجھے
پھر اہل ہوش کے نرغے میں آ گیا ہوں میں
خدا کے واسطے اک بار پھر پکار مجھے
بکھر رہی ہے محبت کی روشنی ہر سو
اڑا رہا ہے کوئی صورت غبار مجھے
نہ جانے کون سا ہے شعبدہ تعاقب میں
کہ آج اس نے کہا ہے وفا شعار مجھے
جو آپ آئیں تو یہ فیصلہ بھی ہو جائے
دکھائی دیتا ہے موسم تو خوش گوار مجھے
ہزار بار سکون حیات کی حد میں
ہزار بار کیا دل نے بے قرار مجھے
مرے شباب مری زندگی مرے ماضی
زبان حال سے اک بار پھر پکار مجھے
وہ بات جس پہ مدار وفا ہے یزدانیؔ
وہ بات کہنا پڑے گی حضور یار مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.