نگاہ یار ہم سے آج بے تقصیر پھرتی ہے
نگاہ یار ہم سے آج بے تقصیر پھرتی ہے
کسی کی کچھ نہیں چلتی ہے جب تقدیر پھرتی ہے
مرقع ہے مری آنکھوں میں کیا یاران رفتہ کا
جو نظروں کے تلے ہر ایک کی تصویر پھرتی ہے
ترا دیوانہ جب سے اٹھ گیا صحرائے وحشت سے
بگولے کی طرح سے ڈھونڈھتی زنجیر پھرتی ہے
تری تلوار کا منہ ہم سے پھر جائے تو پھر جائے
ہماری آنکھ کب قاتل تہ شمشیر پھرتی ہے
کبھی تو کھینچ لائے گی اسے گور غریباں پر
کہ مدت سے ہماری خاک دامن گیر پھرتی ہے
بیاں کس منہ سے ہوئے یار کی شیریں کلامی کا
زباں پر اپنی اب تک لذت تقریر پھرتی ہے
مقام عشق میں شاہ و گدا کا ایک رتبہ ہے
زلیخا ہر گلی کوچے میں بے توقیر پھرتی ہے
فراق گل میں اتنا تو عبث نالاں و مضطر ہے
بہار رفتہ پھر اے بلبل دلگیر پھرتی ہے
در باب اثر تک ایک دن جاتے نہیں دیکھا
خدا جانے کہاں یہ آہ بے تاثیر پھرتی ہے
خدا شاہد ہے اس کا پھر نہیں ملتی نہیں ملتی
طبیعت اپنی جس سے او بت بے پیر پھرتی ہے
ہم اس لیلیٰ کو دیوانے ہیں اے غافلؔ جو صحرا میں
بغل میں اپنے مجنوں کی لیے تصویر پھرتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.