نکل کے حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں
نکل کے حلقۂ شام و سحر سے جائیں کہیں
زمیں کے ساتھ نہ مل جائیں یہ خلائیں کہیں
سفر کی رات ہے پچھلی کہانیاں نہ کہو
رتوں کے ساتھ پلٹتی ہیں کب ہوائیں کہیں
فضا میں تیرتے رہتے ہیں نقش سے کیا کیا
مجھے تلاش نہ کرتی ہوں یہ بلائیں کہیں
ہوا ہے تیز چراغ وفا کا ذکر تو کیا
طنابیں خیمۂ جاں کی نہ ٹوٹ جائیں کہیں
میں اوس بن کے گل حرف پر چمکتا ہوں
نکلنے والا ہے سورج مجھے چھپائیں کہیں
مرے وجود پہ اتری ہیں لفظ کی صورت
بھٹک رہی تھیں خلاؤں میں یہ صدائیں کہیں
ہوا کا لمس ہے پاؤں میں بیڑیوں کی طرح
شفق کی آنچ سے آنکھیں پگھل نہ جائیں کہیں
رکا ہوا ہے ستاروں کا کارواں امجدؔ
چراغ اپنے لہو سے ہی اب جلائیں کہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.