نشان زخم پہ نشتر زنی جو ہونے لگی
نشان زخم پہ نشتر زنی جو ہونے لگی
لہو میں ظلمت شب انگلیاں بھگونے لگی
ہوا وہ جشن کہ نیزے بلند ہونے لگے
نیام تیغ کی خنجر کے ساتھ سونے لگی
جہاں میں دوڑ کے پہنچا تھا وہ گھنیری چھاؤں
ذرا سی دیر میں زار و قطار رونے لگی
ندی ڈباؤ نہ تھی ڈوبنا پڑا لیکن
کنارے پہنچا تو شرمندگی ڈبونے لگی
سب اپنی پیاس بجھانے میں محو تھے ہمہ تن
ہوا یہ پھر کہ ہوا شعلہ خیز ہونے لگی
بڑھائے ہاتھ مدد کو دراز دستوں نے
تو اپنا بوجھ وہ چیونٹی کی طرح ڈھونے لگی
کچھ اور سرخ رو ہو کر اٹھے وہ مقتل سے
گھٹا بھی اٹھی تو دامن کے داغ دھونے لگی
وہ پیرزن جسے کانٹے نکالنے تھے خلشؔ
وہ ساحرہ کی طرح سوئیاں چبھونے لگی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.