نمایاں اور بھی رخ تیری بے رخی میں رہے
نمایاں اور بھی رخ تیری بے رخی میں رہے
سپردگی کے بھی پہلو کشیدگی میں رہے
نظر اٹھی تو اٹھا شور اک قیامت کا
نہ جانے کیسے یہ ہنگامے خامشی میں رہے
ہوائے شہر غریبی کی کیفیت تھی عجیب
نشے میں رہ کے بھی ہم اپنے آپ ہی میں رہے
پکارتے رہے کیا کیا نہ دل کے ویرانے
ہم ایسے شہر میں الجھے تھے شہر ہی میں رہے
حصار وحشت دل سے نکل تو آئے مگر
تمام عمر عجب سحر آگہی میں رہے
مری وفا کی حقیقت غبار دشت طلب
مری وفا کے فسانے تری گلی میں رہے
کبھی تو پہنچے گی منزل پہ سر بلندیٔ شوق
اس آسرے پہ مقامات بندگی میں رہے
انہیں سے ابھری ہیں کتنے غموں کی تصویریں
وہ سائے جو مری آنکھوں کی روشنی میں رہے
ہمیں ملا تھا شرف کائنات پر باقرؔ
ہمیں کلی کی ترا دل گرفتگی میں رہے
- کتاب : Kulliyat-e-Baqir (Pg. 205)
- Author : Sajjad Baqir Rizvi
- مطبع : Sayyed Mohammad Ali Anjum Rizvi (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.