نمایاں ہیں مری بربادیوں کے کچھ نشاں اب تک
نمایاں ہیں مری بربادیوں کے کچھ نشاں اب تک
پڑی ہے صحن گلشن میں یہ خاک آشیاں اب تک
معاذ اللہ یہ مجھ بیکس پہ زور آسماں اب تک
نشیمن کیا ملا گرتی ہیں دل پر بجلیاں اب تک
دیا تھا درد تم نے وہ بھی نا کافی ہوا مجھ کو
رہی ہے درد و غم کی نامکمل داستاں اب تک
محبت ختم ہونے پر بھی باقی ہیں نشاں اب تک
مرے سینے میں ہے آباد یہ درد نہاں اب تک
چمن کو چھوڑ کر جاؤں کہاں میں اے چمن والو
وہی دشمن ہوا میرا رہا جو مہرباں اب تک
دم آخر نہ آئے وہ عیادت کے لئے میری
تعجب ہے دل مضطر کہ ہیں وہ بد گماں اب تک
تجھے نیچا دکھاتا میں کبھی کا نالۂ دل سے
ستم سہتا رہا لیکن ترے اے آسماں اب تک
ترا نام مبارک ہے زباں پر مرنے والے کی
تجھے بھولا نہیں ہے بے خودی میں مہرباں اب تک
کسی کے حسن کی ہوتی ہے مدت سے کسک دل میں
مگر سمجھے نہیں اے رازؔ یہ راز نہاں اب تک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.