نمایاں منتہائے سعئ پیہم ہوتی جاتی ہے
نمایاں منتہائے سعئ پیہم ہوتی جاتی ہے
طبیعت بے نیاز ہر دو عالم ہوتی جاتی ہے
اٹھی جاتی ہے دل سے ہیبت آلام روحانی
جراحت بہر قلب زار مرہم ہوتی جاتی ہے
کنارا کر رہا ہے روح سے ہیجان سرتابی
کہ گردن جستجو کے شوق میں خم ہوتی جاتی ہے
جنوں کا چھا رہا ہے زندگی پر اک دھندلکا سا
خرد کی روشنی سینے میں مدھم ہوتی جاتی ہے
نسیم بے نیازی آ رہی ہے بام گردوں سے
عروس مدعا کی زلف برہم ہوتی جاتی ہے
نمایاں ہو چلا ہے اک جہاں چشم تصور پر
نظر شاید حریف ساغر جم ہوتی جاتی ہے
گرہ یوں کھل رہی ہے ہر نفس ذوق تماشا کی
کہ ہر ادنیٰ سی شے اب ایک عالم ہوتی جاتی ہے
فضا میں کانپتی ہیں دھندلی دھندلی نقرئی شکلیں
ہر اک تخیئل پاکیزہ مجسم ہوتی جاتی ہے
نہ جانے سینۂ احساس پر یہ ہات ہے کس کا
طبیعت بے نیاز شادی و غم ہوتی جاتی ہے
سمجھ میں آئیں کیا باریکیاں قانون قدرت کی
عبادت کثرت معنی سے مبہم ہوتی جاتی ہے
خجل تھا جس کی شورش سے تلاطم بحر ہستی کا
مرے دل میں وہ ہلچل جوشؔ اب کم ہوتی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.