پیٹ کی آگ میں برباد جوانی کر کے
پیٹ کی آگ میں برباد جوانی کر کے
پنچھی لوٹے ہیں ابھی نقل مکانی کر کے
خانۂ دل میں گھڑی بھر کو ٹھہرنا ہے انہیں
پھر گزر جائیں گے ہر بات پرانی کر کے
عشق اظہار کا طالب ہے نہ مطلوب نظر
فائدہ کیا ہے میاں شعلہ بیانی کر کے
اب وہاں خاک اڑا کرتی ہے ارمانوں کی
ہم چلے آئے تھے منزل پہ نشانی کر کے
پار لگ جائے گا سانسوں کا سفینہ اک روز
دھڑکنوں میں تری یادوں سے روانی کر کے
چند لمحوں کا مرا اس کا سفر تھا ایسا
رات ہو جیسے کہیں شام سہانی کر کے
اس کی نظروں میں حقیقت ہے فسانہ ذاکرؔ
چھوڑ جائے گا مجھے اب وہ کہانی کر کے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.