پھرتے ہیں اب بھی دل کو گریباں کیے ہوئے
پھرتے ہیں اب بھی دل کو گریباں کیے ہوئے
جن وحشیوں پہ ہیں ترے احساں کیے ہوئے
تجدید عشق کیا ہو کے برسوں گزر گئے
تجھ سے کوئی سخن بھی مری جاں کیے ہوئے
اب تجھ سے کیا گلہ ہو کے اک عمر ہو گئی
ہم کو بھی قصد کوچۂ جاناں کیے ہوئے
دل سے ہوئی ہے پھر ترے بارے میں گفتگو
تر آنسوؤں سے دیدہ و داماں کیے ہوئے
جی مانتا نہیں ہے کہ ہم بھی بھلا چکیں
تیری طرح سے وعدہ و پیماں کیے ہوئے
کچھ ضد میں ناصحوں کی تجھے چاہتے رہے
کچھ پاسداریٔ دل ناداں کیے ہوئے
ہم وہ کہ تجھ کو شعر میں تصویر کر دیا
صورت گران شہر کو حیراں کیے ہوئے
بازار سرد تھا نہ خریدار کم نظر
ہم خود تھے اپنے آپ کو ارزاں کیے ہوئے
اے عشق ہم سے اور بھی ہوں گے زمانے میں
اچھے بھلے گھروں کو بیاباں کیے ہوئے
کچھ ہم سے نامراد کہ پھرتے ہیں کو بہ کو
دل کو کسی فقیر کا داماں کیے ہوئے
وعدہ کیا تھا اس نے کسی شام کا کبھی
ہم آج تک ہیں گھر میں چراغاں کیے ہوئے
اب اس کے جور سے بھی گئے ہم کہ جب سے ہیں
اپنے کیے پہ اس کو پشیماں کیے ہوئے
یہ رت جگے قبول کہ آرام سے تو ہیں
رکھتے تھے ورنہ خواب پریشاں کیے ہوئے
ہم وہ اسیر ہیں کہ زمانے گزر گئے
بند اپنے آپ پر در زنداں کیے ہوئے
ترک وفا کے بعد ہوس اختیار کی
اس کاروبار میں بھی ہیں نقصاں کیے ہوئے
جان فرازؔ مرگ تمنا کے باوجود
بھولے نہیں ہمیں ترے احساں کیے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.