پھولنے پھلنے لگے ہیں صاحب زر اور بھی
پھولنے پھلنے لگے ہیں صاحب زر اور بھی
تنگ ہو جائے گی دھرتی مفلسوں پر اور بھی
یہ زمیں زرخیز ہوگی خون پی کر اور بھی
کھیتیاں اگلا کریں گی لعل و گوہر اور بھی
ہر زمانے میں ثبوت عشق مانگا جائے گا
لال ماؤں کے چڑھیں گے سولیوں پر اور بھی
پھولتے پھلتے ہیں جذبے درد کے ماحول میں
زخم کھائیں تو نکھرتے ہیں سخن ور اور بھی
آفتاب ابھرا ہے جس دن سے نئی تہذیب کا
ہو گیا تاریک انساں کا مقدر اور بھی
جب چلی تحریک تعمیر وطن کی دوستو
ہو گئے برباد کچھ بستے ہوئے گھر اور بھی
جس قدر باہر کی رونق میں مگن ہوتا گیا
بڑھ گئی بے رونقی انساں کے اندر اور بھی
میں بناتا جا رہا ہوں اور بھی کچھ آئنہ
وقت برساتا چلا جاتا ہے پتھر اور بھی
بستیوں پر حادثوں کی چاند ماری کے لئے
بڑھ رہے ہیں اوج کی جانب ستم گر اور بھی
منفرد استاد دانشؔ بھی ہیں غالب کی طرح
یوں تو دنیا میں ہیں نازؔ اچھے سخن ور اور بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.