قحط وفائے وعدہ و پیماں ہے ان دنوں
قحط وفائے وعدہ و پیماں ہے ان دنوں
زوروں پہ احتیاط دل و جاں ہے ان دنوں
ملعون ہیں جو موسم گل کے جنوں میں ہیں
متروک رسم چاک گریباں ہے ان دنوں
یہ رسم رفتگاں تھی فراموش ہو گئی
اپنے کئے پہ کون پشیماں ہے ان دنوں
آنکھیں ہیں خشک صورت صحرائے بے گیاہ
سینہ ہجوم اشک سے گریاں ہے ان دنوں
یہ کیسا عہدہ ہے کہ مری چشم خواب میں
نقش قدم بھی دیدۂ جبراں ہے ان دنوں
ڈرتا ہوں اپنے سانس کی سنتا ہوں جب صدا
دہشت بہت قریب رگ جاں ہے ان دنوں
دیدہ دروں کے گھر پہ مسلط ہے تیرگی
اندھوں کی انجمن میں چراغاں ہے ان دنوں
بد تر ہے جانور سے بھی دانشوروں کا حال
جو سوچتا نہیں ہے وہ انساں ہے ان دنوں
ہر بوالہوس دھنی ہے مقدر کا آج کل
ہر بے ضمیر صاحب امکاں ہے ان دنوں
تجھ سے گلا نہیں ہے کہ تو پھر بھی غیر تھا
میرا وجود مجھ سے گریزاں ہے ان دنوں
جی چاہتا ہے روئے زمیں پر بکھیر دوں
جو درد میری روح میں پنہاں ہے ان دنوں
کیسے چھڑاؤں کیسے لکھوں شرح درد نو
ہر ایک لفظ زینت زنداں ہے ان دنوں
یادوں کے پھول حد نظر تک کھلے ہیں پھر
دشت فراق رشک گلستاں ہے ان دنوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.