قلم اٹھاؤں مسلسل رواں دواں لکھ دوں
قلم اٹھاؤں مسلسل رواں دواں لکھ دوں
کوئی پڑھے نہ پڑے میں کہانیاں لکھ دوں
جہاں تک آئیں تصور میں وادیاں لکھ دوں
پھر ان پہ نام تمہارا یہاں وہاں لکھ دوں
جہاں ملے مجھے روٹی اسے لکھوں دھرتی
جہاں پہنچ نہ سکوں اس کو آسماں لکھ دوں
نکل چلوں کہیں حسن و جنوں کے جنگل میں
ہرن کی آنکھ میں کاجل کی ڈوریاں لکھ دوں
کہانی ختم ہوئی لیکن اس کا کیا کیجے
جو لفظ یاد اب آئے انہیں کہاں لکھ دوں
جو ذہن میں ہیں حروف ان کو کام میں لاؤں
جو دکھ پڑے ہی نہ ہوں ان کی داستاں لکھ دوں
کچھ ایسا پتر لکھوں آپ کو جو بھا جائے
مرا ہوں آپ کے گن اپنی خامیاں لکھ دوں
غزل تو کہہ دوں رضاؔ یہ بھی تو اجازت ہو
جسے تو ہندوی کہتا تھا وہ زباں لکھ دوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.