قیامت ہے سر بالیں وہ زلفوں کا بکھر جانا
قیامت ہے سر بالیں وہ زلفوں کا بکھر جانا
مری آشفتگی پر ان کے چہرے کا اتر جانا
خود اپنے سایہ سے وہ ہر قدم پر ان کا ڈر جانا
اور اس معصومیت پر سادگی پر میرا مر جانا
بعید مصلحت ہے غم میں یوں گھل گھل کے مر جانا
کہ دیکھا ہے حوادث میں سے کشتی کا گزر جانا
پڑے گی پھر کوئی افتاد پھر آنسو رواں ہوں گے
نئے طوفان کی آمد ہے دریا کا اتر جانا
لب ساحل کو بوسہ دے کے یوں ڈوبی مری کشتی
کسی کا جس طرح ہاں کہہ کے پھر جانا مکر جانا
نظام زندگی کچھ ایسے اجزا سے مرتب ہے
کہ نا ممکن سا ہے شیرازۂ غم کا بکھر جانا
لب بام آفتاب آیا تو غفلت سے نقاب اٹھی
بڑی مدت میں ہم نے مقصد نور سحر جانا
نظر والے حقیقت سے کبھی منکر نہیں ہوتے
ہم ایسوں نے ہمیشہ زندگی کو درد سر جانا
جوانی بد گماں ہوتی ہے لیکن اس قدر بسملؔ
کہ آئینے میں اپنے روبرو ہوتے ہی ڈر جانا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.