قصۂ خاک تو کچھ خاک سے آگے تک تھا
قصۂ خاک تو کچھ خاک سے آگے تک تھا
گیلی مٹی کا سفر چاک سے آگے تک تھا
میں بشر تھا سو مرے پاؤں سے لپٹی تھی زمیں
اور چرچا مرا افلاک سے آگے تک تھا
شعلۂ عشق غم ہجر سر شہر ہجوم
اک گریبان تھا صد چاک سے آگے تک تھا
خامشی کرب لہو رنگ میں ڈوبے ہوئے پھول
مرحلہ دیدۂ نمناک سے آگے تک تھا
لوٹ آیا ہوں یہی دیکھ کے اک دشت سے میں
ایک جبہ میری پوشاک سے آگے تک تھا
رہ گئیں شہر خرد میں ہی الجھ کر سوچیں
اک جہاں اور بھی ادراک سے آگے تک تھا
دست سقراط پہ رکھے ہوئے پیالے کا امین
زہر قاتل کسی تریاک سے آگے تک تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.