رائیگاں اوقات کھو کر حیف کھانا ہے عبث
رائیگاں اوقات کھو کر حیف کھانا ہے عبث
خوب رویوں سے جہاں کے دل لگانا ہے عبث
کارگر ہوگا ترا افسوں یہ باور ہے تجھے
اس پری پر اے دل وحشی دوانا ہے عبث
جیتے پھر آنے کی پہلے رکھ توقع دل سے دور
ورنہ کوچے میں ستم گاروں کے جانا ہے عبث
خاک ہو کر ایک صورت ہے گدا و شاہ کی
گر موافق تجھ سے اے منعم زمانا ہے عبث
یاد کس کو رحم جی میں کب دماغ و دل کہاں
یاں نہ آنے کا مرے صاحب بہانا ہے عبث
دل شکن ہے صبح دم تیرا ہی گلچیں باغ میں
آشیاں اے عندلیب اس جا بنانا ہے عبث
اے گل خنداں ثبات عمر ہے شبنم سے کم
یاں بہار رنگ پر ہنسنا ہنسانا ہے عبث
واں پھرے ہیں ترکش مژگاں تلاش صید پر
یاں ترا دل تیر حسرت کا نشانا ہے عبث
آبرو کہتے ہیں جس کو ہے محبؔ اک قطرہ آب
جب ڈھلک جاوے تو پھر اس کا اٹھانا ہے عبث
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.