راستے پھیلے ہوئے جتنے بھی تھے پتھر کے تھے
راستے پھیلے ہوئے جتنے بھی تھے پتھر کے تھے
راہزن ششدر رہے خود قافلے پتھر کے تھے
نرم و نازک خواہشیں کیا ہو گئیں ہم کیا کہیں
آرزوؤں کی ندی میں بلبلے پتھر کے تھے
اشک سے محروم تھیں آنکھیں فضائے شہر کی
جان و دل پتھر کے تھے جو غم ملے پتھر کے تھے
ہر قدم پر ٹھوکروں میں زندگی بٹتی رہی
آدمی کی راہ میں سب مرحلے پتھر کے تھے
دل دھڑک کر چپ رہا کل مصلحت کی راہ پر
سر بریدہ سیکڑوں اوپر تلے پتھر کے تھے
ریگزار زیست میں سوز سفر جاتا رہا
یوں ہوا محسوس جیسے آبلے پتھر کے تھے
لمحہ لمحہ سنگ بن کر جی رہی تھی میں صدفؔ
چاہتوں کے درمیاں جب حوصلے پتھر کے تھے
- کتاب : Sargoshi Baharon Ki (Pg. 55)
- Author : Sadaf Jafri
- مطبع : Maktaba Talimat (2000)
- اشاعت : 2000
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.