رات میں شانۂ ادراک سے لگ کر سویا
بند کی آنکھ تو افلاک سے لگ کر سویا
اونگھتا تھا کہیں محراب کی سرشاری میں
اک دیا سا کسی چقماق سے لگ کر سویا
ایک جلتا ہوا آنسو جو نہیں سوتا تھا
دیر تک دیدۂ نمناک سے لگ کر سویا
ان گنت آنکھیں مرے جسم پہ چندھیائی رہیں
بقعۂ نور مری خاک سے لگ کر سویا
کوزہ گر نے مرے بارے میں یہ دفتر میں لکھا
چاک سے اترا مگر چاک سے لگ کر سویا
نیند کی شرط تھی تنہا نہیں سونا مجھ کو
ہجر تھا سو اسی سفاک سے لگ کر سویا
رات کانٹوں پہ گزاری تو سویرے سوچا
کس لیے خیمۂ عشاق سے لگ کر سویا
نیند سولی پہ چلی آئی سو زخم عریاں
اپنی اک خواہش پوشاک سے لگ کر سویا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.