راتوں کے اندھیروں میں یہ لوگ عجب نکلے
راتوں کے اندھیروں میں یہ لوگ عجب نکلے
سب نام و نسب والے بے نام و نسب نکلے
تعمیر پسندی نے کچھ زیست پر اکسایا
کچھ موت کے ساماں بھی جینے کا سب نکلے
یہ نور کے سوداگر خود نور سے عاری ہیں
گردوں پہ مہ و انجم تنویر طلب نکلے
یہ دشت یہ صحرا سب ویران ہیں برسوں سے
اس سمت بھی دیوانہ تکبیر بہ لب نکلے
تہذیب کی بے باکی ایسی تو نہ تھی پہلے
ہم جب بھی کہیں نکلے تا حد ادب نکلے
تسکیں کے لئے ہم نے جن سے بھی گزارش کی
ہم سے بھی زیادہ وہ تسکین طلب نکلے
ہستی کی مسافت میں اپنا جنہیں سمجھا تھا
جب وقت پڑا فرحتؔ وہ مہر بہ لب نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.