رشتوں کو جب دھوپ دکھائی جاتی ہے
سگریٹ سے سگریٹ سلگائی جاتی ہے
جسم ہمارا اک ایسی مل ہے جس میں
اندھیاروں سے دھوپ بنائی جاتی ہے
نا سے اس کی شکل ملانے لگتا ہوں
جب اس کی آواز سنائی جاتی ہے
کیا وہ پنے سچ مچ کورے ہوتے ہیں
جن پر کوئی ضرب لگائی جاتی ہے
بلے بابا دیوانوں کو سمجھاؤ
اپنی ہستی کام میں لائی جاتی ہے
اپنی مٹی اپنا پانی واپس لے
سنتے ہیں یہ شے لوٹائی جاتی ہے
پتھر لے کر آتے ہیں سب سینے میں
بھاگ جگے تو ٹھوکر کھائی جاتی ہے
خاموشی سے یکجا کرتے ہیں خود کو
شور مچا کر آگ بجھائی جاتی ہے
ہوتے ہوتے روشن ہوتا ہے چہرہ
جاتے جاتے دل سے کائی جاتی ہے
دونوں بھوؤں کی شکنیں ہاتھ بٹاتی ہیں
اپنی تیسری آنکھ بنائی جاتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.