گمشدہ تنہائیوں کی رازداں اچھی تو ہو
گمشدہ تنہائیوں کی رازداں اچھی تو ہو
میں یہاں اچھا نہیں ہوں تم وہاں اچھی تو ہو
وقت رخصت بھیگے بھیگے ان دریچوں کی قسم
نور پیکر چاند صورت گلستاں اچھی تو ہو
تھرتھراتے کانپتے ہونٹوں کو آیا کچھ سکوں
اے زباں رکھتے ہوئے بھی بے زباں اچھی تو ہو
دھوپ نے جب آرزو کے جسم کو نہلا دیا
بن گئی تھیں تم وفا کا سائباں اچھی تو ہو
رات بھر چلے وظیفے وہ تہجد اور فجر
مل گیا اب تو صلہ اے میری ماں اچھی تو ہو
اس زمانے میں جب اپنوں کا بھروسہ ہو فریب
سوچتی رہتی ہو میں جاؤں کہاں اچھی تو ہو
جھلملاتے ہیں ستارے رات کو پلکوں پہ جب
چاند سے سنتی ہو میری داستاں اچھی تو ہو
وہ تمہاری اک سہیلی بن گئی تھی جو دلہن
اس سے خط لکھ کر کبھی پوچھا نہاں اچھی تو ہو
جب کہیں جاؤ تو لکھ دینا مجھے اپنا پتہ
پوچھنے ورنہ میں جاؤں گا کہاں اچھی تو ہو
تم سدا اچھی رہو آذرؔ کی ہے بس یہ دعا
فاصلے صدیوں کے ہیں اب درمیاں اچھی تو ہو
- کتاب : Karwaan-e-Ghazal (Pg. 340)
- Author : Farooq Argali
- مطبع : Farid Book Depot (Pvt.) Ltd (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.