رخ روشن کا روشن ایک پہلو بھی نہیں نکلا
رخ روشن کا روشن ایک پہلو بھی نہیں نکلا
جسے میں چاند سمجھا تھا وہ جگنو بھی نہیں نکلا
وہ تیرا دوست جو پھولوں کو پتھرانے کا عادی تھا
کچھ اس سے شعبدہ بازی میں کم تو بھی نہیں نکلا
ابھی کس منہ سے میں دعویٰ کروں شاداب ہونے کا
ابھی ترشے ہوئے شانے پہ بازو بھی نہیں نکلا
گھروں سے کس لیے یہ بھیڑ سڑکوں پر نکل آئی
ابھی تو بانٹنے وہ شخص خوشبو بھی نہیں نکلا
شکاری آئے تھے دل میں شکار آرزو کرنے
مگر اس دشت میں تو ایک آہو بھی نہیں نکلا
تری بھی حسن کاری کے ہزاروں لوگ ہیں قائل
گلی کوچوں سے لیکن اس کا جادو بھی نہیں نکلا
بتا اس دور میں اقبال ساجدؔ کون نکلے گا
صداقت کا علم لے کر اگر تو بھی نہیں نکلا
- کتاب : kulliyat-e-iqbaal saajid (Pg. 89)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.