رخصت نطق زبانوں کو ریا کیا دے گی
رخصت نطق زبانوں کو ریا کیا دے گی
درس حق گوئی کا یہ بنت خطا کیا دے گی
سجدہ کرتی ہے لئیموں کے دروں پر دنیا
بے نیازوں کو یہ بے شرم بھلا کیا دے گی
یہی ہوگا کہ نہ آئے گی کبھی گھر میرے
مجھ کو دنیائے دنی اور سزا کیا دے گی
سال ہا سال کے طوفاں میں بھی دل بجھ نہ سکا
زک اسے سرکشی موج ہوا کیا دے گی
کوئی موسم ہو مہکتے ہیں یہاں زخم کے پھول
میرے دامن کو تہی دست صبا کیا دے گی
دل تو کچھ کہتا ہے پر شرم سے اٹھتے نہیں ہاتھ
دیکھنا ہے کہ یہ بے دست دعا کیا دے گی
خواہش مرگ ہے کچھ پانے کی موہوم امید
زندگی دے نہ سکی کچھ تو قضا کیا دے گی
خواب دیکھے ہیں تو بیدار رہو عمر تمام
چشم خوابیدہ کو تعبیر صلا کیا دے گی
اسی زندان میں اب کاٹ دو عمر اپنی وحیدؔ
میں نہ کہتا تھا تمہیں قید وفا کیا دے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.