سایا کوئی میں اپنے ہی پیکر سے نکالوں
سایا کوئی میں اپنے ہی پیکر سے نکالوں
تنہائی بتا کیسے تجھے گھر سے نکالوں
اک موج بھی مل جائے اگر مجھ کو صلے میں
گرتے ہوئے دریا کو سمندر سے نکالوں
تیشے سے بجاتا پھروں میں بربط کہسار
نغمے جو مرے دل میں ہیں پتھر سے نکالوں
لو تیز نہیں کچھ مری آنکھوں ہی کی شاید
مطلب یہی بے نوریٔ منظر سے نکالوں
بدلے نہ کوئی رنگ ترا حسن خموشی
میں بات کے پہلو ترے تیور سے نکالوں
توبہ نے جگایا مرے اندر کا شرابی
اب فال بھی ٹوٹے ہوئے ساغر سے نکالوں
سوچوں کے بیاباں میں لیے پھرتا ہے مجھ کو
کیا ذہن بھی سودا ہے جسے سر سے نکالوں
اک نسل سخن مجھ میں ہے آباد مظفرؔ
صورت نئی ہر لفظ کے اندر سے نکالوں
- کتاب : Kalam-e- muzaffar warsi (Pg. 30)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.