سب نقش اس فلک کے نگینے پہ آ رہے
کار جہاں تمام کمینے پہ آ رہے
آگے جو دلبری تھی سو عاشق کشی ہے اب
جو کام مہر کے تھے سو کینے پہ آ رہے
غصے میں جوش مارا جو دریائے حسن نے
جلوے نزاکتوں کے پسینے پہ آ رہے
ڈرتا ہے دل کہ اس پہ ترقی نہ ہو کہیں
ملنے کے وقت اب تو مہینے پہ آ رہے
تو کچھ نہ بولے اور مزہ ہو کہ میرا ہاتھ
کاندھے سے تیرے مستی میں سینے پہ آ رہے
دریائے دل کی موج سے خطرہ ہے چشم کو
مت یہ کہیں اچھل کے سفینے پہ آ رہے
پولی تلے گزر گئی لاکھوں کی عمر اب
گنبد میں کوئی کون سے جینے پہ آ رہے
جن کا دماغ عرش پہ تھا اب ہیں پائمال
کوٹھے پہ جو کہ رہتے تھے زینے پہ آ رہے
گنج نہاں سے دل کے تو واقف ہوے نہ ہم
کیا فائدہ جو زر کے دفینے پہ آ رہے
دو دن کے چاؤ چوز حسنؔ کے وہ ہو چکے
پھر رفتہ رفتہ اپنے قرینے پہ آ رہے
- Deewan-e-Meer Hasan
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.