صبا میں مست خرامی گلوں میں بو نہ رہے
دلچسپ معلومات
(دسمبر 1962ء )
صبا میں مست خرامی گلوں میں بو نہ رہے
ترا خیال اگر دل کے روبرو نہ رہے
ترے بغیر ہر اک آرزو ادھوری ہے
جو تو ملے تو مجھے کوئی آرزو نہ رہے
ہے جستجو میں تری اک جہاں کا درد و نشاط
تو کیا عجب کہ کوئی اور جستجو نہ رہے
تری طلب سے عبارت ہے سوز و حیات
ہو سرد آتش ہستی جو دل میں تو نہ رہے
تو ذوق کم طلبی ہے تو آرزو کا شباب
ہے یوں کہ تو رہے اور کوئی جستجو نہ رہے
کتاب عمر کا ہر باب بے مزہ ہو جائے
جو درد میں نہ رہوں اور داغ تو نہ رہے
خدا کرے نہ وہ افتاد آ پڑے ہم پر
کہ جان و دل رہیں اور تیری آرزو نہ رہے
ترے خیال کی مے دل میں یوں اتاری ہے
کبھی شراب سے خالی مرا سبو نہ رہے
وہ دشت درد سہی تم سے واسطہ تو رہے
رہے یہ سایۂ گیسوئے مشک بو نہ رہے
کرو ہمارے ہی داغوں سے روشنی تم بھی
بڑا ہے درد کا رشتہ دوئی کی بو نہ رہے
نہیں قرار کی لذت سے آشنا یہ وجود
وہ خاک میری نہیں ہے جو کو بہ کو نہ رہے
اس التہاب میں کیسے غزل سرا ہو کوئی
کہ ساز دل نہ رہے خوئے نغمہ جو نہ رہے
سفر طویل ہے اس عمر شعلہ ساماں کا
وہ کیا کرے جسے جینے کی آرزو نہ رہے
- کتاب : Aatish Zeer-e-paa (Pg. 160)
- Author : Sajidah Zaidi
- مطبع : Sajidah Zaidi, Aligarah (1995)
- اشاعت : 1995
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.