صدیوں سے میں اس آنکھ کی پتلی میں چھپا تھا
صدیوں سے میں اس آنکھ کی پتلی میں چھپا تھا
پلکوں پہ اگر مجھ کو سجا لیتے تو کیا تھا
تو پھیل گیا تا بہ ابد مجھ سے بچھڑ کر
میں جسم کے زنداں میں تجھے ڈھونڈ رہا تھا
ہاں مجھ کو ترے سرخ کجاوے کی قسم ہے
اس راہ میں پہلے کوئی گھنگرو نہ بجا تھا
گزرے تھے مرے سامنے تم دوش ہوا پر
میں دور کہیں ریت کے ٹیلے پہ کھڑا تھا
سینے میں ابھرتے ہوئے سورج کا تلاطم
آنکھوں میں تری ڈوبتی راتوں کا نشہ تھا
گزرا نہ ادھر سے کوئی پتھر کا پجاری
مدت سے میں اس راہ کے ماتھے پہ سجا تھا
جب وقت کی دہلیز پہ شب کانپ رہی تھی
شعلہ سا مرے جسم کے آنگن سے اٹھا تھا
اب جانیے کیا نقش ہواؤں نے بنائے
اس ریت پہ میں نے تو ترا نام لکھا تھا
اے دیدۂ حیراں تو ذرا اور قریب آ
اے ڈھونڈنے والے میں تجھے ڈھونڈ رہا تھا
اچھا ہے رشیدؔ آنکھ بھر آئی ہے کسی کی
اس خشک سمندر میں تو میں ڈوب چلا تھا
- کتاب : Fasiil-e-lab (Pg. 25)
- Author : Rashiid Qaisarani
- مطبع : Aiwan-e-urdu Taimuriya karachi (1973)
- اشاعت : 1973
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.