سفر یہ میرا عجب امتحان چاہتا ہے
سفر یہ میرا عجب امتحان چاہتا ہے
بلا کے حبس میں بھی بادبان چاہتا ہے
وہ میرا دل نہیں میری زبان چاہتا ہے
مرا عدو ہے مجھی سے امان چاہتا ہے
ہزار اس کو وہی راستے بلاتے ہیں
قدم قدم وہ نیا آسمان چاہتا ہے
عجیب بات ہے مجھ سے مرا ہی آئینہ
مری شناخت کا کوئی نشان چاہتا ہے
میں خوش ہوں آج کہ میری انا کا سورج بھی
مرے ہی جسم کا اب سائبان چاہتا ہے
میں اس کی بات کی تردید کر تو دوں لیکن
مگر وہ شخص تو مجھ سے زبان چاہتا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.