سحر کو دھند کا خیمہ جلا تھا
سحر کو دھند کا خیمہ جلا تھا
ہیولیٰ کہر کے اندر چھپا تھا
مکاں جسموں کی خوشبو سے تھا خالی
مگر سایوں سے آنگن بھر گیا تھا
جلی حدت سے نم آلود مٹی
کوئی سورج زمیں میں دھنس گیا تھا
خموشی کی گھٹن سے چیخ اٹھا
مرا گنبد بھی صحرا کی صدا تھا
ابھر آئی تھی دریاؤں میں خشکی
مگر ڈھلوان پر پانی کھڑا تھا
اڑا تھا میں ہواؤں کے سہارے
رکی آندھی تو نیچے گر پڑا تھا
بھیانک تھا مرے اندر کا انساں
میں اس کو دیکھ کر کتنا ڈرا تھا
لہو صدیقؔ اب تک بہہ رہا ہے
کبھی اک پھول ماتھے پر لگا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.