سنبھالے ابر کرم تو سنبھل بھی سکتی ہے
سنبھالے ابر کرم تو سنبھل بھی سکتی ہے
یہ دل کی شاخ ابھی پھول پھل بھی سکتی ہے
بجھاؤ مغربی آتش کی بڑھ کے چنگاری
کہ اس سے مشرقی تہذیب جل بھی سکتی ہے
عروج ظرف کی حد سے نکل نہ جائے کہیں
یہ شے فراز پہ جا کر پھسل بھی سکتی ہے
ہم آج زور محبت کا آزمائیں گے
سنا ہے رخ یہ ہوا کا بدل بھی سکتی ہے
یہ سرد سرد ہوائیں یہ چاندنی یہ فراق
ترے لئے یہ طبیعت مچل بھی سکتی ہے
کسی پہ مرنے سے پہلے مجھے نہ تھا معلوم
کہ ایسے جینے کی حسرت نکل بھی سکتی ہے
قدم قدم پہ اجالوں کا اہتمام کرو
کہ چلتے چلتے کہیں شام ڈھل بھی سکتی ہے
کمال ضبط کو میرے مرا خدا رکھے
یہ مفلسی مرے ٹکڑوں پہ پل بھی سکتی ہے
خلوص مہر و وفا پیار اور محبت سے
بدل کے دیکھیے دنیا بدل بھی سکتی ہے
ہری بھری سی رتوں میں یہ ڈھل بھی سکتی ہے
خزاں کی زرد سی رنگت بدل بھی سکتی ہے
ادب کی شان بنوں آرزو یہ ہے زریابؔ
مگر یہ کیا مری حسرت نکل بھی سکتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.