سنبھل کر آہ بھرنا اے اسیر دام تنہائی
سنبھل کر آہ بھرنا اے اسیر دام تنہائی
کہیں ہاتھوں سے چھٹ جائے نہ دامان شکیبائی
عجب انداز رکھتی ہے ادائے دشت پیمائی
کہ خود ہی خار بڑھ کر چومتے ہیں پائے سودائی
جو رنگ حسن خاموشی ہے وہ کھوتی ہے گویائی
ہوا جب لب کشا غنچہ تو باہر بو نکل آئی
ابھی تو بس تصور ہے تمہارے آستانے کا
ابھی دیکھا کہاں تم نے مرا ذوق جبیں سائی
کچھ اس انداز سے چھیڑا نگاہ ناز جاناں نے
کہ رہ رہ کر ہمارے دل کے زخموں کو ہنسی آئی
رہے انکار میں اقرار کا اعجاز بھی پنہاں
کرو خون وفا لیکن بہ انداز مسیحائی
عرق آگیں جبیں انسانیت کی ہو گئی جنبشؔ
کہ دور آیا ہے وہ شرم و حیا کی آنکھ بھر آئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.