سمندر دشت پر بت کاٹتی ہے
مصیبت کو مصیبت کاٹتی ہے
چھپاؤں سر تو کھل جاتا ہے پاؤں
ضرورت کو ضرورت کاٹتی ہے
زمیں کرتی ہے باتیں آسماں سے
یہاں ہر شے کی قیمت کاٹتی ہے
مزہ فٹپاتھ کا پوچھو نہ یارو
امارت کی مجھے چھت کاٹتی ہے
فقیری میں ہے اتنا لطف یارو
کہ مجھ کو بادشاہت کاٹتی ہے
غنیمت جانیے جنگل میں بسنا
ہمیں اب آدمیت کاٹتی ہے
بزرگوں کا کہا کب مانتے ہیں
کہ بچوں کو نصیحت کاٹتی ہے
بدن میں چبھتی ہیں نظروں کی کرچیں
اسے لوگوں کی نیت کاٹتی ہے
ہوا ہوں اس قدر بدنام سیفیؔ
مجھے اب میری شہرت کاٹتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.