سنور جائے بھی تو منہ دیکھنے درپن نہیں ملتا
سنور جائے بھی تو منہ دیکھنے درپن نہیں ملتا
غریبی کی کلائی میں کوئی کنگن نہیں ملتا
بڑوں کی خواہشوں کا بوجھ ہے ننھے سے کندھوں پر
ہمارے دور میں بچوں کو اب بچپن نہیں ملتا
میں ضد کر کے کبھی روتا تو آنسو پونچھ لیتی تھی
ابھی روتا ہوں تو شفقت بھرا دامن نہیں ملتا
کہیں جھولے نہیں پڑتے کبھی سرسوں نہیں پھولی
یہاں پردیس میں آ کر مجھے ساون نہیں ملتا
سیاست کی دکانوں سے خریدیں ہیں نئے چہرے
سبھی رہبر بنیں پھرتے ہیں اک رہزن نہیں ملتا
مرے اسلاف سا کوئی امانت دار ہے صابرؔ
اگر مصرف ہو ذاتی تو دیا روشن نہیں ملتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.