سر برہنہ بھری برسات میں گھر سے نکلے
سر برہنہ بھری برسات میں گھر سے نکلے
ہم بھی کس گردش حالات میں گھر سے نکلے
دن میں کس کس کو بتائیں گے مسافت کا سبب
بس یہی سوچ کے ہم رات میں گھر سے نکلے
سر پہ خود اپنی صلیبوں کو اٹھائے ہم لوگ
روح کا بوجھ لئے ذات میں گھر سے نکلے
کب برس جائیں ان آنکھوں کا بھروسہ ہی نہیں
کون بے وقت کی برسات میں گھر سے نکلے
ڈر گیا دیکھ کے میں شہر مہذب کا چلن
کتنے آسیب فسادات میں گھر سے نکلے
عین ممکن ہے کی وہ دن میں نمایاں ہی نہ ہو
اس ستارے سے کہو رات میں گھر سے نکلے
ان کی فطرت میں تغافل بھی مرکب تھا نفسؔ
ہم ہی ناداں تھے جو جذبات میں گھر سے نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.