سر میں سودا بھی وہی کوچۂ قاتل بھی وہی
سر میں سودا بھی وہی کوچۂ قاتل بھی وہی
رقص بسمل بھی وہی شور سلاسل بھی وہی
بات جب ہے کہ ہر اک پھول کو یکساں سمجھو
سب کا آمیزہ وہی آب وہی گل بھی وہی
ڈوب جاتا ہے جہاں ڈوبنا ہوتا ہے جسے
ورنہ پیراک کو دریا وہی ساحل بھی وہی
دیکھنا چاہو تو زخموں کا چراغاں ہر سمت
محفل غیر وہی انجمن دل بھی وہی
کیسے ممکن ہے کہ قاتل ہی مسیحا ہو جائے
اس کی نیت بھی وہی دعوئ باطل بھی وہی
تم سمجھتے نہیں انورؔ تو خطا کس کی ہے
راہ ہے روز ازل سے وہی منزل بھی وہی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.