سرنگوں دل کی طرح دست دعا ہو بھی چکے
سرنگوں دل کی طرح دست دعا ہو بھی چکے
سلسلے جن کے جدا تھے وہ جدا ہو بھی چکے
دشت میں آیا نہیں ناقۂ محمل بر دوش
نقش کچھ صورت نقش کف پا ہو بھی چکے
نخل امید رہا پھر بھی نمو سے محروم
جب کہ موسم کئی آغوش کشا ہو بھی چکے
ایک بے نام سی حسرت ہے بدن میں باقی
جس قدر قرض تھے شب کے وہ ادا ہو بھی چکے
خواہش عقدہ کشائی پہ ندامت کیسی
رسم ناخن سے خفا بند قبا ہو بھی چکے
اب تو بس ایک تسلسل ہے تعلق کا دراز
امتحاں ہو بھی چکا وعدے وفا ہو بھی چکے
کب تک اے باد صبا تجھ سے توقع رکھوں
دل تمنا کا شجر ہے تو ہرا ہو بھی چکے
میں تو اک گونج میں زندہ ہوں سر بزم رضیؔ
جن کو ہونا تھا یہاں نغمہ سرا ہو بھی چکے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.