ستاتا وہ اگر فطرت سے ہٹ کے
ستاتا وہ اگر فطرت سے ہٹ کے
تو پتھر مارتا میں بھی پلٹ کے
جو میں نے انتظار یار کھینچا
مرا گھر بن گئی دنیا سمٹ کے
بہت کچھ ہے نفس کی انجمن میں
مگر میں جی رہا ہوں سب سے ہٹ کے
میں ان خاموشیوں میں رہ رہا ہوں
جہاں آتی ہیں آوازیں پلٹ کے
دیے کی لو ذرا جو ڈگمگائی
زمیں پر آسماں آیا جھپٹ کے
یہ سچ ہے میں وہی ہوں تو وہی ہے
مگر اب سانس لے کچھ دور ہٹ کے
گزارا دن مشقت کرتے کرتے
گزاری رات پتھر سے لپٹ کے
ترے بارے میں سوچے جا رہا ہوں
مگر اب لگ رہے ہیں دل کو جھٹکے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.