سوال بے امان بن کے رہ گئے
سوال بے امان بن کے رہ گئے
جواب امتحان بن کے رہ گئے
حد نگاہ تک بلند فلسفے
گھروں کے سائبان بن کے رہ گئے
جو ذہن، آگہی کی کار گاہ تھے
خیال کی دکان بن کے رہ گئے
بیاض پر سنبھل سکے نہ تجربے
پھسل پڑے بیان بن کے رہ گئے
کرن کرن یقین جیسے راستے
دھواں دھواں گمان بن کے رہ گئے
ضیائیں بانٹتے تھے، چاند تھے کبھی
گہن لگا تو دان بن کے رہ گئے
مرا وجود شہر شہر ہو گیا
کہیں کہیں نشان 'بن' کے رہ گئے
کمر جواب دے کے جھک گئی بدن
سوالیہ نشان بن کے رہ گئے
میں فن کی ساعتوں کو لب نہ دے سکا
نقوش بے زبان بن کے رہ گئے
نفس نفس طلب طلب تھے سازؔ ہم
قدم قدم تکان بن کے رہ گئے
- کتاب : khamoshi bol uthi hai (Pg. 92)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.